Alfia alima

Add To collaction

اچھی بیٹی

اچھی بیٹی
بڑی بہن سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے پاس کھڑی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ سڑک کی طرف تھا۔ چھوٹی بہن فرش پر بچھی ہوئی دری پر بیٹھی تھی۔ اس نے کھڑکی کی طرف منہ پھیر رکھا تھا۔ وہ کمرہ جس میں دونوں بہنیں تھیں، دوسری منزل پر تھا۔ بڑی بہن نے پھر کہا، ’’دیکھنا ہے تو جلد آ۔ ورنہ پھر ملٹری والے اٹھا کر لے جائیں گے۔‘‘ چھوٹی بہن اپنی ’’نہیں‘‘ پر ڈٹی رہی، ’’نا بابا۔ نا۔ مجھ سے نہیں دیکھا جائے گا۔‘‘ 

’’خود ہی کہتی ہے اور پھر خود ہی نانا کرتی ہے۔‘‘ 

’’میں نے کب کہا؟‘‘ 

’’کل نہیں کہہ رہی تھی۔‘‘ 

بڑی کھڑکی سے ہٹ کر چھوٹی کے پاس آگئی۔ 

’’تو ڈرتی کیوں ہے؟‘‘ 

’’میں کیوں ڈرنے لگی!‘‘ 

’’تو پھر اٹھ۔‘‘ 

’’نا۔ بابا۔‘‘ 

’’نا۔ بابا۔ نا۔ بابا۔ یہ ڈرنا نہیں تو اور کیا ہے۔‘‘ 

’’اچھا جاؤ میں ڈرتی ہوں۔ بس!‘‘ 

’’ڈرتی تو ہے ہی۔‘‘ 

دونوں بہنیں تھوڑی دیر خاموش بیٹھی رہیں۔ ان کی خاموشی آناً فاناً سڑک اور محلے کی قبرستانی خاموشی سے گھل مل گئی اور پھر بوجھ بن کر ان کے اعصاب اور ان کے ذہنوں پر بیٹھ گئی۔ چھوٹی نے آہستہ سے کہا، ’’آپا۔‘‘ بڑی نے چلا کر جواب دیا، ’’کیا ہے؟‘‘ چھوٹی اچھل پڑی۔ 

’’چلاتی کیوں ہو آپا!‘‘ بڑی پھر چلائی، ’’میں کب چلائی؟‘‘ چھوٹی منمنائی، ’’چلاؤ مت ورنہ مجھے ڈر لگنے لگے گا۔‘‘ 

’’ڈرلگنے لگے گا! بات بات پر لاڈلی کو ڈر لگنے لگتا ہے۔‘‘ 

’’میں نے کہہ دیا۔ چلاؤ مت۔ نہیں تو میں نیچے چلی جاؤں گی۔‘‘ 

’’چلی جا۔‘‘ 

’’ضرور چلی جاؤں گی اور جا کر امی سے کہہ دوں گی کہ آپا پھر کھڑکی میں سے باہر جھانک رہی ہیں۔‘‘ 

’’تو کیا ہوگا؟‘‘ 

’’اماں پھر تمہیں نیچے بلا لیں گی۔ یہ ہوگا۔‘‘ 

’’بلالیں!‘‘ 

’’بلا لیں گی تو پھر تم باہر کیسے جھانک پاؤگی اور میں انہیں بتادوں گی کہ تم جھانک جھانک کر کیا دیکھ رہی ہو۔ پھر وہ جھاڑ پڑے گی کہ۔۔۔ جیسے کل پڑی تھی۔۔۔ نہ جانے کیا ہوگیا ہے اس کمبخت کو۔ حیوان ہوگئی ہے۔ کسی کی جان جاتی ہے تو اس کے لیے تماشا ہوتا ہے۔ یہ بھلا انسانوں کے ڈھنگ ہیں۔۔۔ یاد ہے!‘‘ بڑی بہن نے ذرا چپ رہ کر کہا، ’’تو چپکی بیٹھ۔ اب میں نہیں چلاتی۔‘‘ چھوٹی بہن تھوڑی دیر چپکی بیٹھی رہی۔ پھر کھسک کر بڑی کے پاس آگئی، ’’ملٹری نہیں آئی ابھی تک۔ آپا؟‘‘ 

’’آئے گی تو بوٹوں کی آواز نہیں آئے گی؟‘‘ 

’’آئیں آپا۔ کھڑکی میں سے بالکل صاف دکھائی دیتا ہے؟‘‘ 

’’بالکل صاف۔ گھر کے بالکل سامنے تو پڑا ہے۔‘‘ 

’’ہائے اللہ!‘‘ 

’’پھر ڈری تو!‘‘ 

’’میں ڈری نہیں آپا۔ لیکن ملٹری والے آئیں گے تو ہم لوگوں کو پکڑ کر لے جائیں گے۔‘‘ 

’’ہمیں کیوں پکڑیں گے!‘‘ 

’’بالکل ہمارے گھر کے سامنے جو پڑا ہے۔‘‘ 

’’تو کیا ہوا؟‘‘ 

’’وہ کہیں گے انہی لوگوں کی حرکت ہوگی۔‘‘ 

’’واہ ری عقل کی پتلی۔ کل جو وہ تین لاشیں خان صاحب کے گھر کے سامنے سے اٹھا کر لے گئے تھے تو کیا انہوں نے خان صاحب کو پکڑ لیا تھا؟‘‘ 

’’آئیں آپا۔ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا پہلوانوں کو۔۔۔‘‘ 

’’اور نہیں تو کیا۔ میں یہیں کھڑی تھی کھڑکی کے پاس، جب پہلوانوں کی گلی سے تین لڑکے نکلے بڑی تیزی سے۔ تلواریں تھیں ان کے پاس۔ بس انہوں نے فوراً تلواروں سے حملہ کر دیا ان تینوں پر۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ اور ان کی گردنیں کاٹ لیں۔‘‘ 

’’تم جھوٹ بولتی ہو۔ ابا جی کہہ رہے تھے کہ انہوں نے چھرے گھونپے تھے۔‘‘ 

’’چھرے نہیں تلواریں تھیں ان کے پاس۔‘‘ 

’’وہ۔۔۔ ابا جی کیا جھوٹ بولیں گے؟‘‘ 

’’یہاں سے صاف نظر نہیں آ رہا تھا۔ مگر لاشوں کو تو میں نے اچھی طرح دیکھا تھا۔‘‘ 

’’ان کی گردنیں الگ تھیں!‘‘ 

’’اتنی دور سے یہ کیسے نظر آیا؟‘‘ 

’’اور ابھی تو تم کہہ رہی تھی کہ ان کی گردنیں کاٹ لی تھیں۔‘‘ 

’’ تُو تو بلا وجہ بال کی کھال نکالتی ہے۔ کہہ دیا کہ اتنی دور سے صاف نظر نہیں آتا۔‘‘ 

پھر خاموشی چھاگئی اور کمرے کی خاموشی سڑک کی خاموشی اور محلے کی خاموشی نے پھر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کافی دیر بعد چھوٹی بہن نے سکوت توڑا، ’’آپا۔‘‘ 

’’ہوں۔‘‘ 

’’تمہیں ڈر نہیں لگتا؟‘‘ 

’’نہیں۔‘‘ 

’’بالکل نہیں؟‘‘ 

’’بالکل نہیں۔‘‘ 

’’تم جھوٹ بولتی ہو۔‘‘ 

بڑی بہن چونک پڑی۔ 

’’تو مجھے جھوٹا کہتی ہے!‘‘ 

’’تم جھوٹ بولتی ہو۔‘‘ 

’’کون سا جھوٹ بولا تم سے؟‘‘ 

’’ابھی ابھی جو کہہ رہی تھیں کہ مجھے بالکل ڈر نہیں لگتا۔‘‘ 

’’اس میں جھوٹ کی کون سی بات ہے؟‘‘ 

’’یہی کہ تمہیں ڈر لگتا ہے۔ بخار تک آجاتا ہے ڈر کے مارے۔‘‘ 

’’کب آیا تھا مجھے بخار؟‘‘ 

’’جب خان صاحب کے لڑکے کی لاش آئی تھی۔‘‘ 

’’کتنے سال ہو گئے اسے! اور پھر تو دیکھتی تو پتا چلتا کیسی بھیانک شکل ہوگئی تھی اس کی۔‘‘ 

’’آئیں آپا ڈوب کر سب کی شکل بھیانک ہو جاتی ہے؟‘‘ 

’’نہیں تو۔ لیکن اس کی لاش تو ڈیڑھ دن بعد ملی تھی۔‘‘ 

’’اسے تو ڈبویا تھا۔ ہے نا آپا؟‘‘ 

’’ڈبویا نہیں تھا۔ خود ڈوب گیا تھا۔‘‘ 

’’اماں تو کہہ رہی تھیں ڈبویا تھا۔ تبھی تو کسی کو پتا نہیں چلا ڈیڑھ دن تک۔‘‘ 

’’پتا تو اس لیے نہیں چلا کہ اس کے دوستوں نے ڈر کے مارے بتایا نہیں۔‘‘ 

’’تمہیں پورے ایک ہفتے بخار آیا تھا۔‘‘ 

’’چھوٹی جو تھی اس وقت، ڈر گئی۔ مگر بخار نہیں آیا تھا۔‘‘ 

’’آہاہا۔ بخار نہیں آیا تھا تو اتنے دن بستر پر کیوں پڑی رہی تھیں؟‘‘ 

’’تو کیا جانے۔۔۔ اسے بخار تھوڑی کہتے ہیں۔‘‘ 

’’تو پھر کیا کہتے ہیں؟‘‘ 

’’کچھ نہیں۔ چھوٹی عمر میں بچے ایسی چیزوں سے ڈر ہی جاتے ہیں۔‘‘ 

’’لیکن جب شفیق کا قتل ہوا تھا، تو تم بڑی تھیں پھر کیوں ڈری تھیں؟‘‘ 

’’ڈری نہیں تھی۔ میری طبیعت پہلے ہی سے خراب تھی۔‘‘ 

’’واہ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ تمہارا پیشاب تک نکل گیا تھا۔ گھر آئی تھیں تو ساری شلوار بھیگی ہوئی تھی اور آتے ہی گر پڑی تھیں بستر پر۔‘‘ 

’’تو ہوتی وہاں تو پتا چلتا۔ تیری تو جان ہی نکل جاتی۔ پھر سے۔‘‘ 

’’آئیں آپا۔ جب جان نکلتی ہے تو کدھر سے نکلتی ہے۔‘‘ 

’’منہ سے اور کدھر سے۔‘‘ 

’’اور جب کسی کے چھرا گھونپا جاتا ہے۔ تب بھی منہ سے نکلتی ہے؟‘‘ 

’’تب ادھر سے نکلتی ہے جہاں چھرا گھونپا جاتا ہے۔‘‘ 

بہنوں کی گفتگو اچانک رک گئی اور سڑک کی خاموشی کا سیلاب کمرے میں گھس آیا۔ پھر اچانک بوٹوں کی آواز آنے لگی۔ آہستہ آہستہ یہ آواز قریب آتی گئی۔ بڑی بہن کھڑی ہو گئی اور لپکی کھڑکی کی طرف۔ کھڑکی کا پردہ ذرا سا کھسکا کر اس نے چھوٹی بہن کو ہاتھ سے اپنے پاس بلایا۔ مگر چھوٹی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ بڑی بولی، ’’جلدی آ۔ ملٹری والےآرہے ہیں۔ اٹھاکر لے جائیں گے تو پھر کیسے دیکھ پائے گی۔‘‘ چھوٹی نے زور سے سر ہلا کر کہا، ’’نا۔ بابا۔ میں نہیں آتی۔ لے جائیں اٹھا کر۔‘‘ 

’’چار ہیں۔ بندوقیں لیے۔ لوہے کے ہیٹ پہنے۔ آتی ہے کہ نہیں!‘‘ 

’’نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔‘‘ 

’’نہ آ۔ میں نے تو دیکھ لیا۔ تو ہی رہ جائے گی۔ اب تو وہ تھوڑی دور رہ گئے ہیں۔‘‘ پھر بوٹوں کے دوڑنے کی آواز آئی اور بڑی بہن نے کھڑکی کا پردہ چھوڑ دیا۔ چھوٹی نے پوچھا، ’’آگئے؟‘‘ بڑی نے کہا، ’’ٹھہر۔ دیکھتی ہوں۔‘‘ بوٹوں کی آواز بند ہو چکی تھی۔ بڑی نے آہستہ سے پردے کو ذرا سا ہٹایا۔ اور اثبات میں سر ہلا کر سرگوشی کے انداز میں بولی، ’’ہاں۔‘‘ وہ ذرا دیر پردے کی اوٹ سے جھانکتی رہی۔ پھر بولی، ’’اب بھی آجا۔ وہ اسے اٹھانے ہی والے ہیں۔‘‘ مگر چھوٹی اپنی ’’نہیں‘‘ پر ڈٹی رہی۔ بڑی نے کہا، ’’اب وہ اسے اٹھا رہے ہیں۔ دونے اس کے پیر پکڑے ہیں اور دو اس کے ہاتھ پکڑ رہے ہیں۔ اس کا منہ ابھی تک دوسری طرف ہے اور پیٹھ ہماری طرف۔ اب انہوں نے اس۔۔۔‘‘ 

یکایک پہلے چیخوں اور پھر گھگھیوں کا ایک شور بلند ہوا۔ جس نے کمرے میں چھائی ہوئی خاموشی کے سینے میں پے در پے نہ جانے کتنے خنجر اتار دیے۔ بڑی بہن کی پھٹی پھٹی آنکھیں۔ تنا ہوا چہرہ اور کانپتا ہوا بدن دیکھ کر اس کی چیخیں اور گھگھیاں سن کر چھوٹی بہن نے بھی چلا چلا کر رونا شروع کر دیا۔ سیڑھیوں پر تیز تیز چڑھتے ہوئے قدموں کی آواز آئی۔ اور دھاڑ سے لڑکیوں کی ماں کمرے میں حواس باختہ داخل ہوئی۔ اس نے پہلے چھوٹی بہن کی طرف دیکھا اور پھر بڑی بہن کی طرف جس کی گھگھیاں ابھی تک جاری تھیں۔ وہ دوڑ کر بڑی کے پاس گئی اور اسے سینے سے لگا کر پوچھنے لگی، ’’کیا ہوا۔ کیا ہوا؟‘‘ 

بڑی نے بڑی مشکل سے اپنے گھگھیوں پر قابو پاکر کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا، ’’اس کی آنتیں۔ اماں جی اس کی آنتیں۔‘‘ بیٹی کے منہ سے یہ ادھورا جملہ سن کر ماں کے چہرے پر سے وحشت کے بادل چھٹنے لگے اور اس نے اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیر کر بڑے پیار سے کہا، ’’میری بیٹی! میری اچھی بیٹی!‘‘ 

ماں کا ادھورا جملہ سن کر چھوٹی بہن کا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ کھلنے لگا۔ اور چھوٹی بہن کو مسکراتا دیکھ کر ’’اچھی بیٹی‘‘ نے شرما کر اپنا منہ ماں کے کاندھے پر رکھ دیا۔ 

   1
0 Comments